Ierf


پروفیسر ڈاکٹر محمد ظفر اقبال جلالی
مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا تیسرا مقدس مقام بھی ہے، سر زمین فلسطین پر واقع ہے، فلسطین ایک ایسی سر زمین ہے کہ جہاں ہمیشہ انبیائے کرام تشریف لاتے رہے اور اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے، اسی مسجد اقصیٰ جسے قبلہ اول کہا جاتا ہے، کی جانب رخ کر کے ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عرصے تک نماز ادا کرتے رہے اور جب اللہ کا حکم آیا تو رُخ تبدیل کیا گیا جسے تحویل قبلہ کہاجاتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:”قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہ (پ۲، البقرۃ:۴۴۱)ترجمہ:ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے مسلمانوتم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو۔
یہی وہ مقام ہے کہ جب ہمارے پیارے نبی ﷺکو سفر معراج کروایا گیا، تو پہلے مسجد حرام یعنی مکہ سے مسجد اقصیٰ ہی لایا گیا تھا اور آپ ﷺ نے ستر ہزار انبیاء کی امامت کروائی تھی۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ”ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آپس میں بات کر رہے تھے کہ کون سی مسجد افضل ہے؟رسول اللہ ﷺ کی مسجد یا مسجد بیت المقدس؟” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس کی چار نمازوں سے افضل ہے، بیت المقدس نماز کے لیے بہترین جگہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ گھوڑے کی رسی کے برابر بیت المقدس سے اتنی قریب جگہ جہاں سے بیت المقدس نظر آئے وہ بندے کے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو(مستدرک حاکم)اس حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں مسجد اقصی اور بیت المقدس کی شان کتنی عظیم تھی کہ انہوں نے مسجد اقصی کا موازنہ مسجد نبوی سے کیا۔ بہرحال قبلہ اول مسجد اقصی کے فضائل اور برکات کے بارے میں جتنی بھی گفتگو کی جائے اور اس کے فضائل بیان کیے جائیں کم ہیں۔
1948میں برطانیہ اور امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک کے ایما پر اسی سرزمین فلسطین پر ایک غاصب ریاست اسرائیل کو وجود میں لایا گیا۔ اس ریاست کے وجود کے قیام سے ہی پہلے سے اس سرزمین پر بسنے والے عربوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور ایک طرف تو ان کو بڑے پیمانے پر قتل کیا جانے لگا تو دوسری طرف ان کے مکانات اور اراضی پر شدت پسند یہودیوں نے قبضہ بھی جمانا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ انھوں نے مظالم کا سلسلہ بڑھانا شروع کیا اور آج تک وہی سلسلہ جاری ہے۔صہیونیوں کے ان مظالم کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی اپنے وطن سے جبری طور پر بے گھر کردیے گئے، جلاوطن ہوئے اور آج بھی مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی ہزار انہی صہیونیوں کے مظالم کی زد میں آکر جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ فلسطینی اراضی پر بھی صہیونیوں نے قبضہ کرلیا، غرض یہ کہ گزشتہ 75 سال میں ان انسانیت کے دشمن صہیونیوں نے تمام تر مقاصد کہ جن میں فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام، بے گھر کرنا، تعلیم جیسی سہولت سے محروم کرنا، نوجوانوں کو قید و بند کرنا، خواتین کی عصمت دری کرنا سمیت فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنا، فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کرنے میں کسی قسم کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔
صہیونی ریاست کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد ان شدت پسند صہیونیوں کا بنیادی مقصد مسجد اقصیٰ پر بھی اپنا تسلط قائم کرنا تھا، جس کے لیے انھوں نے 1967 میں عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ناکامی کے نتیجے میں باقاعدہ طور پر اس شہر القدس کو اپنے تسلط میں لے لیا جب کہ 1969 میں ایک منظم سازش کے تحت مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا گیا، جس کے نتیجے میں مسجد کے تاریخی مقامات اور مقدس مقامات کو شدید نقصان پہنچا۔ البتہ اس دوران پوری مسلم دنیا میں کھلبلی مچ اٹھی اور واویلا بپا ہوا، اسی کے نتیجے میں پھر مسلمانوں کی غیرت جاگ اٹھی اور اسلامی سربراہی کانفرنس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جس کے بنیادی مقاصد میں قبلہ اول کا دفاع اور تحفظ کو یقینی بنانا تھا، تاہم آج وہی اسلامی سربراہی کانفرنس اور اس کے سربراہان امریکا کی کاسہ لیسی کی بدولت
تنظیم کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج قبلہ اول کو ماضی سے کہیں زیادہ خطرات ہیں، براہ راست صہیونی قبلہ اول کی توہین اور تقدس کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، مظلوم فلسطینیوں کو قتل کررہے ہیں، معصوم بچوں کو جیلوں کی نذر کیا جارہا ہے، ان پر فاسفورس بم اور مزائل گرائے جارہے ہیں۔خواتین اور بچوں کا قتل عام جاری ہے، جواب میں فلسطینی اپنا دفاع کررہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ معمولی نوعیت کے خنجر کے حملوں کے بعد ان کی موت یقینی ہوجائے گی، اس کے باوجود بھی انھوں نے شہادت کو اپنے لیے فخر اور اعزاز قرار دیا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے کہ وہ ہم سب کے قبلہ اول کے تحفظ کے لئے اپنے بچوں کو قربان کر رہے ہیں،یقینا ًوہ لوگ عظمتوں والے ہوتے ہیں جو کہ قوم کے اجتماعی مفاد پر اپنا آج قربان کرتے ہیں اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر ہم آج مسجد اقصیٰ کا دفاع نہ کر سکے تو کل شاید مسجد نبوی اور بیت اللہ کا تحفظ بھی ہمارے لئے مشکل ہو جائے۔دنیا بھر میں مجموعی طور پر ایک کروڑ یہودی بھی پوری دنیا میں نہیں ہیں جبکہ مسلمان سوا ارب ہیں،وہ کم ہونے کے باوجود ہم پر حاوی ہیں۔ اس لئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم بیت المقدس کی آزادی کے لئے مستقل آواز اٹھائیں۔ فلسطین کے مسلمانوں پر عرصہ دراز سے اسرائیلی فوج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے مگر افسوس کہ اقوام متحدہ سمیت تمام مسلم ممالک آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سلام ہے فلسطینی بہنوں اور بھائیوں پر جو اسرائیلی فوج کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔مسلمان ممالک نمازوں میں دعا کرکے اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں مگر فلسطینی لوگوں کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھاتے بلکہ بہت سے مسلم ممالک تو اسرائیل کو تسلیم کربیٹھے اور اور کچھ تسلیم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
عالم اسلام کے تمام مسلمانوں پر یہ فرض ہوچکا ہے کہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حفاظت کیلئے ہنگامی طور پر اقدامات کریں۔ اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے مسلسل فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر جاری ظلم و بربریت سے عالم اسلام کے تمام مسلمان سکتہ میں آچکے ہیں۔ امریکہ اوراسرائیل مسلمانوں کا قتل عام اور نسلی کشی کر رہاہے۔ تمام عرب ممالک اپنی خاموشی کو توڑیں اور اب یہ ان کا ایمانی فریضہ ہوچکا ہے کہ وہ فلسطین کیلئے خصوصاً غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حفاظت و امداد کیلئے ٹھوس اقدامات کریں اور دشمنانِ اسلام کو منہ توڑ جواب دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Open chat
Hello 👋
Can we help you?